ِِاس یورش زیست میں سسک-سسک کے ہم سانس لیتے رہے کہ جدوجہد میں ابر بہار کی آپ آس دیتے رہے تا زندگی پرچھائوں سے بھی چپ-چپ کے چلتے رہے گلہ یہی کہ بس نور کاذب کی وہ آس دیتے رہے دیکھتے رہے ہم خواہشوں کو بیبسی میں گھلتے ہئے پر چشم بستہ پھر بھی نئے خوابوں کی آس دیتے رہے جو محبت کے ریگستان میں گمراہ ہی بھٹکتے رہے اس مایوس منظر میں افق کوہ تور کی آس دیتے رہے خنجروں نے اتنی درد نا دی جو دی فرجی امیدوں نے پر خورشید نوروز ہر زخم بھرنے کی آس دیتے رہے پروانے تھے شب سیاہ میں ، شمع کی اور بڈھتے ہئے یہ جلتے پنکھ میرے بہار ازل کی آس دیتے رہے خانہ بردوش ہم واقف ہےں بند و بیپناہ دروازوں سے پر اس دل کے ناخدا دہلیز باز کی آس دیتے رہے
The message is supreme;
Born in the heart,
and lilting itself
from tongue to tongue,
throwing its scent
over wind and wave;
travelling on dots
or fingers
when blindness
or silence bar its way.
It hews itself into stone
or burns itself onto magnetic discs;
it is the message that lives
and I exist
solely to pass it on.