Skip to main content

Posts

Showing posts from March, 2014

آس

 ِِاس یورش زیست میں سسک-سسک کے ہم سانس لیتے رہے کہ جدوجہد میں ابر بہار کی آپ آس دیتے رہے تا زندگی پرچھائوں سے بھی چپ-چپ کے چلتے رہے گلہ یہی کہ بس نور کاذب کی وہ آس دیتے رہے دیکھتے رہے ہم خواہشوں کو بیبسی میں گھلتے ہئے پر چشم بستہ پھر بھی نئے خوابوں کی آس دیتے رہے جو محبت کے ریگستان میں گمراہ ہی بھٹکتے رہے اس مایوس منظر میں افق کوہ تور کی آس دیتے رہے خنجروں نے اتنی درد نا دی جو دی فرجی امیدوں نے پر خورشید نوروز ہر زخم بھرنے کی آس دیتے رہے پروانے تھے شب سیاہ میں ، شمع کی اور بڈھتے ہئے یہ جلتے پنکھ میرے بہار ازل کی آس دیتے رہے خانہ بردوش ہم واقف ہےں بند و بیپناہ دروازوں سے پر اس دل کے ناخدا دہلیز باز کی آس دیتے رہے